Tuesday 24 January 2023

کینگرو

کینگرو آسٹریلیا  کا قومی  جانور

کینگرو ایک معصوم جانور ھے مادہ کینگرو 34 دن حمل کے بعد بچے کو جنم دیتی ھے کینگرو واحد جانور ھے جس کا بچہ پیدا ھوتا ھے اس وقت وہ صرف ایک یا ڈیڑھ انچ کا کیڑے نما ھوتا ھے اس کی پچھلی ٹانگیں اور آنکھیں نھیں ھوتیں وہ رینگتا ہوا اپنی ماں کے جسم پر لگی تھیلی میں چلا جاتا ھے اور تھیلی کا منہ بند ھو جاتا ھے اس تھیلی میں اس بچے کو دودھ کا ایک غدود مل جاتا ھے جس کو منہ میں لیکر وہ لیٹ جاتا ھے اور ھفتوں تک حرکت نھیں کرتا  دو مہینوں کے بعد تھیلی کھلتی ھے اور بچہ سر باھر نکالتا ھے 4 مہینوں کے بعد وہ بچہ تھیلی کے اندر پڑے پڑے بور ھوجاتا ھے اور  باھر نکل کر چلنا پھرنا شروع کرتا ھے جیسے ہی خطرہ محسوس ھوتا ھے وہ بھاگ کر اپنی ماں کی تھیلی میں گھس جاتا ھے.
کینگرو آسٹریلیا کا قومی جانور ہے ۔ یہ اپنی دم پر کھڑا بھی ہو سکتا ہے اور لڑائی کے وقت وہ اپنی پونچھ پر سارا وزن ڈال کر اپنی پچھلی ٹانگوں سے  حملہ کرتا ہے۔

کینگرو ایک سبزی خور،جگالی کرنےوالا جانور ہے۔ اس کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں۔ یہ مختلف جسامت اوررنگوں کا ہوتاہے۔ اس کے نام کی وجہ تسمیہ یہ بتائی جاتی ہے کہ قدیمی آسٹریلین ایبوریجنی باشندے اسے اپنی زبان میں ’’گنگرو‘‘ (Gungurru) کہتے ہیں جو انگریزی میں بگڑکر Kangaroo بن گیا۔

کینگروکی سب سے بڑی نسل سرخ کینگرو کہلاتی ہے ۔ اس کا وزن 90 کلو تک، اونچائی ایک اعشاریہ آٹھ میٹر تک اور منہ سے دُم تک لمبائی 9 فٹ تک ہوسکتی ہے۔ ان کی اوسط عمر 23 برس تک ہوتی ہے۔

کینگرو کی ایک نسبتاً چھوٹی نسل ’والابی‘ (Wallabies) کہلاتی ہے۔ ایک اورچھوٹی نسل شجری کینگرو (Tree Kangaroo) کہلاتی ہے کیونکہ یہ درختوں پہ باآسانی چڑھ جاتی ہے بلکہ زیادہ تر وقت درختوں پر ہی گزارتی ہے۔ اس کے جسم اور دُم پر گھنے بال ہوتے ہیں۔ یہ کینگرو ایک درخت سے دوسرے درخت تک 20 فٹ تک کی چھلانگ لگا لیتے ہیں۔اسی طرح 60 فٹ کی بلندی سے چھلانگ لگاکربراہ راست زمین پراترسکتے ہیں۔ اس نسل کے کینگرو ہمسایہ ملک نیوگنی میں بھی دریافت ہوئے ہیں۔


کینگرو کی ایک اور قسم بہت ہی ننھی منی ہوتی ہے ۔اس نسل سے تعلق رکھنے والے ’’چوہا کینگرو‘‘ (Rat Kangaroo) کہلاتے ہیں کیونکہ یہ ایک عام چوہے کے سائزکے ہوتے ہیں۔ اس نسل کے معدوم ہونے کا خطرہ پیدا ہوچکا ہے کیونکہ گوشت خور جانور اور پرندے انہیں باآسانی شکارکرلیتے ہیں۔ یہ بھی سپرنگ کی طرح پچھلی 2ٹانگوں پر اُچھل اُچھل کر چلتے ہیں۔

کینگروکی اگلی ٹانگیں چھوٹی جبکہ پچھلی بہت بڑی اورطاقتورہوتی ہیں۔ اس کی دُم بھی لمبی اور نہایت طاقتورہوتی ہے جو اسےچھلانگیں لگانے نیز حملہ آور ہوتےوقت اس کا سارا وزن سہارنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کینگرو کو زمین پہ نقل وحرکت کرنے کے لیئے پچھلی دونوں ٹانگوں پر چھلانگیں لگانا پڑتی ہیں۔ بڑے سائز کے کینگروکی ایک چھلانگ بسا اوقات 8 میٹرلمبی اور پونے دو میٹر اونچی ہو سکتی ہے۔اس بنا پر یہ قریباً 60 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔


کینگروپانی میں تیرنا بھی جانتے ہیں اوراس مقصدکے لئے یہ اپنی پچھلی دونوں ٹانگیں باری باری چلاتے ہیں جبکہ زمین پر چھلانگیں لگانے کے لئے دونوں ٹانگوں کوبیک وقت استعمال کرتے ہیں۔

کینگرو عموماً فیملی بنا کر رہتے ہیں۔ ایک خاندان متعددمادہ کینگروؤں اور ان کے بچوں پر مشتمل ہوتا ہے، اوران کاسربراہ ایک نر کینگرو ہوتاہے۔سربراہ کینگرو اپنے خاندان میں کسی دوسرے نر کینگرو کو شامل ہونے نہیں دیتا اور کوئی دخل در اندازی کرتا ہے تو ’کِک باکسنگ‘ (Kick Boxing) کی طرح مارمارکر بھاگ جانے پر مجبورکردیتا ہے۔اس لڑائی میں وہ اگلی ٹانگوں کے نوکیلے پنجوں کو بھی خوب استعمال میں لاتاہے۔

ان کی کِک باکسنگ کا شکار بسا اوقات ان کے قریب آنے والے انسان بھی ہوجاتے ہیں اور کئی تو پیٹ کے اعضا پھٹ جانے کے نتیجے میں جاں بحق بھی ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ یہ اچھل کر اپنی پچھلی دونوں ٹانگیں بڑے زور سے مدمقابل کے پیٹ میں مارتے ہیں۔اس لئے بظاہر معصوم نظرآنے والے ان جانوروں سے فاصلے پہ کھڑا ہونے میں ہی عافیت ہوتی ہے۔ پارکوں، چڑیاگھروں وغیرہ میں انہیں جنگلے کے پیچھے ہی رکھا جاتا ہے۔

کینگرو دودھیل جانورہے۔ مادہ کینگرو کو قدرت نے پیٹ کے آگے ایک تھیلی بنا کردی ہوئی ہے جس کے اندر وہ اپنے بچے کودودھ پلاتی،پالتی پوستی بھی ہے اور اسی میں لے کرچلتی پھرتی بھی ہے۔

 کینگروکے بچے خاصے بڑے ہونے تک ماں کے ساتھ اسی تھیلی کے اندررہتے ہیں۔خود چلنے پھرنے اورکھانے پینے کی عُمر (تقریباً 4ماہ) کو پہنچنے پرچھلانگ مارکرباہر نکل آتے ہیں، اور تھکاوٹ یا نیند کا شکار ہوں یا خطرہ دیکھیں تو فَٹ سے تھیلی کے اندر چلےجاتے ہیں۔ 10 ماہ کا ہو جانے کے بعد وہ تھیلی سے باہر مکمل طورپر آزادانہ زندگی گزارنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔

آسٹریلیا کی سپرمارکیٹ اور گوشت کی دکانوں میں کینگرو کا گوشت بھی عام دستیاب ہوتا ہے جس میں چربی کی مقدار نہ ہونے کے برابر، جبکہ عمدہ پروٹین اور فولاد وافرمقدار میں موجود ہوتی ہے۔

کینگروکی کھالوں سے فَروالے کوٹ، قالین، جوتے، کرکٹ کی گیندیں اور دیگر بہت ساری مصنوعات تیارہوتی ہیں۔
منقول 

Monday 22 August 2022

کوا اور عقاب

‏کوا اور عقاب
کوا وہ واحد پرندہ ہے جو عقاب کو چھیڑنے کی جسارت کرتا ہے۔ یہ عقاب کی پیٹھ پر بیٹھ جاتا ہے اور اس کی گردن پے اپنی چونچ سے نوچتا ہے (چنج مارتا ہے) کاٹتا ہے۔ تاہم عقاب کوے کو جواب نہیں دیتا نہ اس سے لڑتا ہے۔ یہ کوے کے ساتھ وقت اور توانائی صرف نہیں کرتا۔ عقاب صرف اپنے پروں کو کھولتا ہے اور آسمان میں اونچی اڑان شروع کرتا ہے۔
‏بہت اونچی پرواز سے کوے کو سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے اور آخر کار آکسیجن کی کمی کی وجہ سے کوا گر پڑتا ہے۔ کیوں کہ کوا اونچائی پے زندہ نہیں رہ سکتا 
یہ ایک فطری عمل ہے کوا صرف گندگی غلاظت اور مردار کھا سکتا ہے 
 کوے کو اونچائی راس نہیں آتی 

Wednesday 27 April 2022

شہد کی مکھی اور شہد بنانے کا طریقہ

شہد کی مکھی۔۔۔شہد کیسے  بنتا ہے 
آدھا کلو شہد بنانے کے لیے شہد کی مکھی بیس لاکھ پھولوں کا رس چوستی ہے اور نوے ہزار میل کا سفر کرتی ہے۔۔۔۔۔یہ سفر پوری دنیا کے تین چکر لگانے کے برابر ہے۔۔۔۔۔یہ پندرہ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑتی ہے۔۔۔۔۔۔۔
مکھی جب شہد بنا لیتی ہے تو اس میں 80 فیصد پانی ہوتا ہے تو مکھی اپنے پروں کو بڑی تیزی سے پھڑپھڑاتی ہے ایک سیکنڈ میں دو سو دفعہ اس کے پر ہلتے ہیں۔۔۔۔اس طرح کرنے سے سارا پانی اڑ جاتا ہے اور خالص شہد تیار ہوتا ہے۔۔۔۔
2000 سال کی تحقیق کے مطابق شہد کی مکھی سب سے بہترین معمار ہے۔۔۔۔شہد کے چھتے کا ہر سوراخ اور ہر سوراخ کی 6 دیواریں سب کا سائز ایک جیسا ہوتا ہے۔۔۔۔اور یہ دیواریں 120 ڈگری پہ مڑی ہوتی ہیں۔۔۔۔ان سوراخوں کی پانچ دیواریں بھی ہوسکتی تھیں لیکن سائنس نے یہ ثابت کیا کہ شہد کو جمع کرنے کے ان 6 دیواروں والے چھتے سے بہتر کوئی گودام ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔
Google image 

Thursday 7 April 2022

عقاب اور مکڑی کی کہانی

.                              عقاب اور مکڑی
طاقت  اور مکاری

ایک عقاب بادلوں کی چادروں کو چیرتا ہوا کوہِ قاف کی چوٹیوں پر پہنچااور ان پرچکر لگا کر ایک صدیوں پرانے دیودار کے درخت پر بیٹھ گیا۔وہاں سے جو منظر دکھائی دے رہا تھا اس کی خوبصورتی میں وہ محو ہوگیا۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دنیا ایک سرے سے دوسرے تک تصویر کی طرح سامنے کھلی ہوئی رکھی ہے۔ کہیں پر دریا میدانوں میں چکر لگاتے ہوئے بہہ رہے ہیں، کہیں پر جھیلیں اور کہیں پر درختوں کے کنج پھولوں سے لدے ہوئے بہار کی پوشاک میں رونق افروز ہیں، کہیں پر سمندر خفگی سے اپنے ماتھے پر بل ڈالے ہوئے کوے کی طرح کالا ہورہا ہے۔ ’’ اے خدا!‘‘ عقاب نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا، ’’ میں تیرا کہاں تک شکر ادا کروں، تو نے مجھے اڑنے کی ایسی طاقت دی کہ دنیا میں کوئی بلندی نہیں ہے جہاں میں پہنچ نہ سکوں
۔ فطرت کے منظروں کا لطف ایسی جگہ بیٹھ کر اٹھا سکتا ہوں جہاں کسی اور کی پہنچ نہیں۔‘‘ ایک مکڑی ایک درخت کی شاخ سے بول اٹھی، ’’تو آخر کیوں اپنے منہ میاں مٹھو بنتا ہے۔ کیا میں تجھ سے کچھ نیچی ہوں؟‘‘عقاب نے پھر دیکھا کہ ایک مکڑی نے اس کے چاروں طرف شاخوں پر اپنا جالا تن رکھا تھا اور اسے ایسا گھنا بنا رہی تھی گویا سورج تک کو عقاب کی نظروں سے چھپا دےگی۔ عقاب نے حیرت سے پوچھا،’’تو اتنی سر بلندی پر کیسے پہنچی؟ جب وہ پرندے بھی جنہیں تجھ سے زیادہ اڑنے کی طاقت ہے یہاں تک پہنچنے کا حوصلہ نہیں کرتے تو کمزور اور بے پر کیا چیز ہے…کیا تو رینگ کر یہاں آئی ہے؟‘‘مکڑی نے جواب دیا۔’’نہیں ایسا تو نہیں ہے۔‘‘’’پھر تو یہاں کیسے آگئی؟‘‘’’جب تو اڑنے لگا تھا تو میں تیری دم سے چپک گئی اور تونے خود مجھے یہاں پہنچا دیا۔لیکن میں یہاں تیری مدد کے بغیر ٹھہر سکتی ہوں اور اس لئے میری گزارش ہے کہ تو اپنے آپ کو بےکار بڑا ظاہر نہ کر اور سمجھ لے میں ہی ۔‘‘اتنے میں ایک طرف سے ہوا کا جھونکا آیا اور اس نے مکڑی کو اڑا کر زمین پر  گرا دیا۔ 
Copied
Google images

Sunday 3 April 2022

ہرنی کے بچے کی زندگی

ہرن کا بچہ

.             
 
ہرنی جب بچہ دیتی ہے تو قدرت کے اصول فوراً لاگو ہو جاتے ہیں اور اسے ان اصولوں کے ساتھ جینا پڑتا ہے اور جینا سیکھانا پڑتا ہے ۔ سب سے پہلے تو وہ بچہ تب پیدا کرتی ہے جب ہریالی ہر سو ہوتی ہے اور گھاس اتنی اونچی کہ اسکا بچہ اس میں چھپ جائے تاکہ وہ شکاریوں کی نظر میں نہ آئے ۔ بچہ بھی قدرتی طور پہ پہلے دن ہی چھلانگیں لگانا شروع کردیتا ہے بھاگنے کی پریکٹس ہونے لگتی ہے کیونکہ اسکی بقاء کے لیے یہ لازمی ہے۔۔۔

اونچی گھاس اسکو وہ وقت دیتی ہے کہ وہ آنے والے مشکل دور کے لیے خود کو چند دنوں میں تیار کرلے اور ماں اسے چند دنوں میں ہی خطرات سے آگاہی سیکھا دیتی ہے ماں بچے کو اونچی گھاس کا استمال ' جھنڈ سے جڑے رہنے کے فوائد ' شکاری کی شکل اور اسکی چالوں سے آگاہ کردیتی ہے۔ یوں وہ بچہ بڑا ہوکر بچ بچا کر  اپنی نسل کے بقاء کے لیے کردار ادا کرتی یا کرتا ہے۔۔۔

ان سب احتیاطی تدابیر کے باوجود بھی اگر کوی شکار ہوجائے تو وہ قدرت کا قانون ہے تقاضے ہیں شکاری کو شکار چاہیے جو بھاگ سکتا ہے بھاگ جائے جو غافل ہوگا مارا جائے گا طاقت کا قانون ہے۔۔۔

 ہرنی کا رونا بنتا ہے ۔
Google image

Sunday 4 July 2021

بزنس ‏اور ‏نوکری ‏

 بزنس اور نوکری 
(بزنس اور نوکری ) 

چھپکلی ہمیشہ لائٹ کی محتاج ھوتی ھے  اس کو لائیٹ کےعلاوہ کسی اور طرف خیال ہی نئ جاتاوہ ہر وقت لائیٹ کے انتظار میں رہتی ھے حتی کے  اس کا اثاثہ اور ذریعہ معاش بھی لائیٹ ھی ھوتی ھے  اگر لائیٹ ھے تو وہ اپنا پیٹ بھر سکتی ھے ورنہ وہ کچھ نہیں کر سکتی سیونگ والی اس میں سوچ ہی نہیں ھوتی لائیٹ ائ اور اس پر انے والے کیڑے مکوڑے کھائے اور سو گئی
نوکری کرنےوالے انسان کی مثال اس چھپکلی ہی کی طرح ھے جو اپنا اثاثہ اپناسب کچھ نوکری کو ہی سمجھتا ھے  اگر نوکری ھے تو گھر چلے گا نوکری گئ تو سب کچھ ختم

                                 ((((مکڑی )))))

مکڑی سب سے پہلےدن رات محنت کر کے اپنا جالا بناتی ھے اس دوران وہ بھوک پیاس سب کچھ برداشت کرتی  ھےکیوں کے اس کو پتہ ھوتاھے کے میری زندگی کا گزر بسر اور میرا اثاثہ یہی جالا ھے  جب جالا تیار ھو جاتاھے تو وہ اس کے درمیان میں ارام سکون سے بیٹھ جاتی ھے پھر اس کے ارد گرد جالے میں  مچھر کیڑے مکوڑے ا کر  پھنس جاتے ھیں اور وہ بیٹھ کر مختلف قسم کے کھانوں سے مزے اڑاتی ھے 
بزنس کرنے والے انسان کی مثال بلکل اس مکڑی جیسی ھوتی ھے جو سب سے پہلے  حالات کتنے ھی برے کیوں نہ ھوں  پہلے وہ اپنا بزنس بناتا ھے  اثاثہ بناتا ھے پھر ساری  زندگی ارام سے گزرے گی
                                 

Sunday 18 August 2019

دودھ والے جانور چونے کے فوائد


 دودھ والے جانور چونے کے فوائد

چونے کے فوائد

جن بھائیوں کے پاس دودھ والے جانور ہیں وہ روز دن میں 1 دفعہ 3،4 گندم کے دانوں کے برابر چونا 1 بالٹی پانی میں ملا کر پلائیں۔
فوائد۔
1۔ روز چونا پلانے سے جانور دودھ بڑھاتا چلا جاتا ہے۔
۔ گائے اور بھینس کے دودھ میں چکنائی کی مقدار بڑھ کر گھی زیادہ حاصل ہوتا ہے۔
۔ جانوروں میں انفرٹیلٹی (گبھن نا ہونا یا کراس ہونے کے بعد پھر جانا) کو ختم کرتا ہے اور وقت پہ جانور میں بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔

نوٹ:- بکریوں پر اس کا تجربہ نہیں کیا گیا۔
اس کے علاوہ اگر آپ اس پوسٹ سے متفق نہیں ہیں تو مہربانی کر کے وجہ بھی ساتھ بتائیں اور اگراس بارے میں نہیں جانتے تو فتوا لگانے سے گریز کریں۔
شکریہ