Saturday 30 June 2018

بکرے کی شان


                                                بکرے کی شان

google image

جب سے برابر والے مرزا صاحب اپنا بکرا لے آۓ تھے ہم نے تو ابا جان کی جان کھالی تھی کہ بس اب بہت دیر ہوگئی چلیں بکرا منڈی ۔۔۔سب لوگ جانور لے آۓ ہیں ۔۔میں اپنی پسند کا بکرا لونگا ,,,,,وغیرہ وغیرہ,,,,ابا جان  ٹال رہے تھے مگر آج ہمارے آنسوؤں نے انہیں بھی موم کردیا اچھا چلو تم بہت ضدی ہو گۓ ہو۔ ان کی ہاں سنتے ہی ہم لگے منڈی جانے کی تیاری کرنے ۔۔۔برابر والے مرزا صاحب سے مول تول کی بابت دریافت کیا تو ہوش ہی اڑ گۓمگر چہرے سے بلکل ظاہر نہیں ہونے دیا کہ پیسے بجٹ سے باہر ہیں ۔خیر ابا جان کی موٹر سائیکل پر بیٹھے اور ہوا کی طرح منزل یعنی منڈی کی طرف روانہ ہوۓ ۔۔۔۔واہ منڈی کیا تھی قربانی کے جانوروں کا ایک سمندر تھا تا حد نگاہ تک ۔۔۔۔ہم نے ایک سمت سے اپنا گوہر 
نایاب ڈھونڈنا شروع کیا ۔ابا جان ہر بکرے کی شان میں قصیدے پڑھ رہے تھے 

google image

مگر ہمیں جس ہیرے کی تلاش تھی وہ نظر نہیں آرہا تھا ۔۔۔۔خیر ہم نے بھی ہمت
 نہیں ہاری ایک جگہ وہ ہمیں نظر آ ہی گیا۔سفید رنگت ،لمبے گھومے ہوۓ سینگ ،سرمگیں آنکھیں ،،چہرے پر بلا کی نخوت ۔۔۔جیسے اپنی اہمیت سے واقف ہو۔ابا جان یہی ہے یہی ہے ہم خوشی سے دیوانے ہوگۓ۔بھاؤ تاؤ کے لمبے اور تکلیف دہ دورانیۓ کے بعد بکرے کی رسی ہمارے ھاتھ آئ ۔۔۔۔ابا جان مستقل بڑبڑ ارہے تھے کہ سونے کے سینگ لگے ہیں جو اتنا مہنگا دیا ہے بس ہماری ضد سے مجبور ہوگۓ ۔اب اگلا مرحلہ اس بکرے کو گھر لے کر جانے کا تھا ۔ابا جان نے مجھے اور بکرے کو دو لوگوں کی مدد سے رکشہ پر سوار کرایا ۔۔اور خود اسکوٹر پر پھیچے پھیچے ہولۓ۔۔۔ٹھنڈی ہوا کا اثر تھا کہ بکرے صاحب نے کچھ ہلنا جلنا شروع کردیا اور تھوڑا رسی گھسیٹنے لگے ہم نے رکشے والے کو کہا بھیا زرا تیز چلاؤ گھر قریب آگیا ہے بکرے کے تیور کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے ۔۔۔۔


google image

جیسے ہی ہم نے اپنی گلی کا ٹرن کاٹا پتہ نہیں کیسے بکرے میاں نے ایک اڑان
 بھری اور رکشے سے باہر ۔۔۔۔ہم ابھی صورتحال کا جائزہ لے رہے تھے کہ ابا جان کی آواز کان میں پڑی ۔۔۔پھیچے بھاگو شہیر ۔۔۔بکرا تو گیا ۔۔۔بس آؤ دیکھا نہ تاؤ ھم بھی اس کے پھیچے بھاگے ۔اچانک بکرے نے بریکیں لگائیں اور پلٹ کر ہماری طرف رخ کرکے کھڑا ہو گیا اور اپنے پاؤں کے کھر زمین پر مارنے لگا ھم نے سکینڈ کے ہزارویں حصے میں اس کی نیت جان لی اور پلٹ کر بھاگے اب صورتحال یہ تھی کے ھم آگے تھے اور بکرا اپنی بڑی بڑی سینگوں کا رخُ کۓ ہماری طرف دوڑا چلا آرہا تھا.ہماری سانس بھاگ بھاگ کر نہ اندر تھی نہ باہر آخر ایک گھر کا دروازہ ہمیںکھلا دکھا اور ہم لپک کر اندر گھس گۓ خیر سے وہ ہمارا ہی گھر تھا ۔۔۔کچھ پتہ نہیں کہ ابا جان نےبکرے کو کیسے قابو کیا بس اس وقت تو ہم سب بھول بیٹھے تھے۔دوسرے دن کچھ ہوش ٹھکانے آۓ تو باہر آکر بکرے کو دیکھا جسے تین رسیوں سے باندھا گیا تھا 

No comments:

Post a Comment