Sunday 2 September 2018

شہد کی مکھیاں یا دیگر خطرناک مکھیاں


    خطرناک مکھیاں

خطرناک مکھیاں حملہ کر دیں تو سب سے پہلے ممکن ہو سکے تو ایمرجنسی سروس سنٹر کو اطلاع کریں
                            خطرناک مکھیاں 
 شہد کی مکھی سمیت دیگر ڈنگ مارنے والی مکھیوں سے بچنے کے لیے ماہرین نے انتہا اہم طریقے بتائیں ہیں ۔جن کے استعمال سے فوراِ ناصرف درد سے نجات مل سکتی ہے بلکہ جان بھی بچائی جاسکتی ہے ۔اس کے لیے مندرجہ ذیل طریقے اپنانے ضروری ہیں ۔ایمرجنسی سروس کو اطلاع دینااگر شہد کی مکھیاں یا دیگر خطرناک مکھیاں حملہ کر دیں تو سب سے پہلے ممکن ہو سکے تو ایمرجنسی سروس سنٹر کو اطلاع کریں ۔تاکہ بروقت جان بچائی جاسکے ۔ڈنگ نکالنا مکھیوں کے حملے کے بعد دوسرا کام یہ ہے کہ ڈنگ کو فوراََ نکالا جائے ۔اس کے لیے کریڈیٹ کارڈ یا ٹیوزر کا استعمال کیا جا سکتاہے ۔برف کا مساججہاں بھی مکھیوں نے کاٹا ہو وہاں برف کا مساج کرنا بہترین ہو سکتاہے ۔۔ میٹھا سوڈا اور پانی کا مکسچر میٹھا سوڈا اور پانی کا مکسچر کاٹی گئی جگہ پر لگایا جائے تو بہترین رہتاہے
 مکھیاں اس دنیا میں ہمارے وجود کی ضمانت
خطرناک ڈنک مارنے والی شہد کی مکھیاں اس دنیا میں ہمارے وجود کی ضمانت ہیں اور اگر یہ نہ رہیں تو ہم بھی نہیں رہیں گےنسل انسانی کے لیے ضروری یہ ننھی مکھیاں اس وقت کئی خطرات کا شکار ہیں۔ جانوروں کی دیگر متعدد اقسام کی طرح انہیں بھی سب سے بڑا خطرہ بدلتے موسموں یعنی کلائمٹ چینج سے ہے۔ موسمی تغیرات ان کی پناہ گاہوں میں کمی کا سبب بن رہے ہیں۔ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں بڑھتی فضائی آلودگی بھی ان مکھیوں کے لیے زہر ہے اور اس کے باعث یہ کئی بیماریوں یا موت کا شکار ہورہی ہیں۔ایک اور وجہ پودوں پر چھڑکی جانے والی کیڑے مار ادویات بھی ہیں۔ یہ ادویات جہاں پودوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں کا صفایا کرتی ہیں وہیں یہ فائدہ مند اجسام جیسے ان مکھیوں کے لیے بھی خطرناک ہیں۔
 مکھیوں کو بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان مکھیوں کو بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ہماری اپنی نسل کو معدومی کا خطرہ ہےشہد کی مکھیاں یہ کام صرف چھوٹے پودوں میں ہی نہیں بلکہ درختوں میں بھی سر انجام دیتی ہیں۔ درختوں میں لگنے والے پھل، پھول بننے سے قبل ان مکھیوں پر منحصر ہوتے ہیں کہ وہ آئیں اور ان کی پولی نیشن کا عمل انجام دیں۔واضح رہے کہ یہ عمل اس وقت انجام پاتا ہے جب شہد کی مکھیاں پھولوں کا رس چوسنے کے لیے پھولوں پر آتی ہیں۔دوسری جانب ان مکھیوں سے ہمیں شہد بھی حاصل ہوتا ہے جو غذائی اشیا کے ساتھ کئی دواؤں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ہم جو کچھ بھی کھاتے ہیں اس کا ایک بڑا حصہ ہمیں ان مکھیوں کی بدولت حاصل ہوتا ہے۔ شہد کی مکھیاں پودوں کے پولی نیٹس (ننھے ذرات جو پودوں کی افزائش نسل کے لیے ضروری ہوتے ہیں) کو پودے کے نر اور مادہ حصوں میں منتقل کرتے ہیں۔ اس عمل کے باعث ہی پودوں کی افزائش ہوتی ہے اور وہ بڑھ کر پھول اور پھر پھل یا سبزی بنتے ہیں۔ماہرین کے مطابق ہماری غذائی اشیا کا ایک تہائی حصہ ان مکھیوں کا مرہون منت ہے۔ امریکی ماہرین معیشت کے مطابق امریکا میں شہد کی مکھیاں ہر برس اندازاً 19 بلین ڈالر مالیت کی افزائش زراعت کا باعث بنتی ہیں


مکھیاں صحت کے لیے انتہائی خطرناک

اگر مکھی کھانے میں بیٹھ جائے، چاہے ایک سیکنڈ کے لیے ہی، تو کیا اسے کھانا صحت کے لیے نقصان دہ تو نہیں؟

اگر اس کا جواب طبی ماہرین سے پوچھا جائے تو وہ کہیں گے کہ ایسا کھانا کبھی بھی نہ کھائیں۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

پین اسٹیٹ ایلبری کالج آف سائنس کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ مکھی چاہے چند لمحوں کے لیے ہی کھانے پر کیوں نہ بیٹھے، وہ انتہائی خطرناک بیکٹریا اس میں منتقل کرسکتی ہے، جس کا اندازہ پہلے کبھی نہیں لگایا جاسکا تھا۔

تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ عام مکھی اپنے ہمراہ سالمونیلا (آنتوں کی سوزش کا باعث بننے والا بیکٹریا)، ای کولی (معدے کے امراض کا باعث بننے والا بیکٹریا) اور معدے کے السر سمیت جان لیوا عفونت والے بیکٹریا لے کر گھومتی ہے۔

تحقیق کے مطابق انسانی صحت کے حوالے سے مکھیوں کے کردار پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی حالانکہ وہ وبائی امراض پھیلنے کا باعث بن سکتی ہے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ شہروں میں گھومنے والی مکھیاں زیادہ جراثیم لے کر گھومتی ہیں اور لوگوں کو باہر کھانے پینے سے گریز کرنا چاہئے۔

محققین کا کہنا تھا کہ ہمارا ماننا ہے کہ لوگوں کو وہ غذا کھانے سے پہلے دو بار سوچنا چاہئے جس پر کوئی مکھی بیٹھ چکی ہو اور باہر تفریح کے دوران بھی منہ چلانے کے لیے اشیاءکی خریداری سے گریز کرنا چاہئے۔

اس تحقیق کے دوران عام مکھیوں کے ڈی این اے کا تجزیہ کرکے یہ ہولناک انکشاف کیا گیا کہ یہ کیڑے اپنے ہمراہ اوسطاً 351 اقسام کے بیکٹریا لے کر گھومتے ہیں۔

محققین کے مطابق مکھیاں اپنے پیروں سے سب سے زیادہ بیکٹریا کسی دوسری چیز پر منتقل کرتی ہیں اور اس کے لیے ان کے لیے ایک لمحے کا وقت بھی کافی ثابت ہوتا ہے۔

No comments:

Post a Comment